Explore the question in detail with explanation, related questions, and community discussions.
لفظ "قوس" عربی زبان سے ماخوذ ہے اور اردو میں مختلف معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کا بنیادی مفہوم ہے کمان، یعنی وہ ہتھیار جو تیر اندازی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ قدیم زمانے میں کمان ایک اہم جنگی ہتھیار تھا جو لکڑی یا دھات سے بنایا جاتا اور اس پر ڈور باندھ کر تیر چلائے جاتے۔ اسی بنا پر "قوس" کا مطلب "کمان" مشہور ہوا اور بعد میں مختلف تشبیہوں اور محاوروں میں بھی یہ لفظ استعمال ہونے لگا۔
لفظ "قوس" صرف ہتھیار کے معنوں میں ہی محدود نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد خمیدہ شکل یا محراب نما دائرہ بھی لیا جاتا ہے۔ کسی چیز کا خم کھانا، دائرے کی مانند مڑ جانا یا محراب بنانا بھی قوس کہلاتا ہے۔ اسی مفہوم کی بنیاد پر "قوسین" کا مطلب ہے دو کمانیں یا دو محراب نما قوسیں، جو اردو میں عام طور پر جملے میں اضافی وضاحت یا الفاظ کو گھیرنے کے لیے استعمال کیے جانے والے نشانات ( ) یعنی بریکٹ کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ ان نشانات کی شکل بھی کمان کی مانند خمیدہ ہونے کے باعث انہیں قوسین کہا جاتا ہے۔
ادبی لحاظ سے "قوس" کا استعمال کئی استعارات میں ہوتا ہے جیسے قوسِ قزح، جس کا مطلب ہے بارش کے بعد آسمان پر نظر آنے والا رنگین کمان نما منظر، جسے انگریزی میں "Rainbow" کہا جاتا ہے۔ اس مثال میں بھی "قوس" کا مطلب خمیدہ کمان ہی ہے لیکن اس کا تعلق قدرتی منظر سے ہے۔
لغت میں "قوس" کے مترادفات میں کمان، تیر انداز کا ہتھیار، خمیدہ لکیر، محراب وغیرہ شامل ہیں جبکہ اس کا متضاد "سیدھی لکیر" یا "غیر خمیدہ شکل" ہو سکتا ہے۔ اردو زبان میں یہ لفظ عموماً علمی، ریاضیاتی، فلکیاتی اور ادبی حوالوں سے استعمال ہوتا ہے۔
یوں "قوس" کا سب سے بنیادی اور معروف مطلب کمان ہے، جو بعد میں مختلف معنوی توسیعات کے ساتھ زبان اور تحریر میں شامل ہوا اور آج بھی کئی اصطلاحات میں استعمال ہوتا ہے۔
Discussion
Leave a Comment