Explore the question in detail with explanation, related questions, and community discussions.
لفظ "نظم" اردو ادب کی ایک نہایت اہم اور بنیادی اصطلاح ہے جو شعری اصناف میں سب سے زیادہ استعمال ہوتی ہے۔ یہ لفظ عربی زبان سے ماخوذ ہے اور لغوی اعتبار سے اس کا مطلب ہے "پرونا" یا "موتیوں کو ایک لڑی میں پرونا"۔ اس کا تعلق کسی چیز کو باقاعدہ ترتیب میں جوڑنے یا ایک ربط کے ساتھ اکٹھا کرنے سے ہے۔
عربی میں "نظم" کا مطلب ہے "چیزوں کو ایک خاص ترتیب اور ربط سے جوڑنا"۔ اس کی ایک مشہور مثال موتیوں کو دھاگے میں پرونا ہے۔ بالکل اسی طرح شعر یا کلام کو جب مخصوص ترتیب، ربط اور معنوی ہم آہنگی کے ساتھ لکھا جاتا ہے تو اسے "نظم" کہا جاتا ہے۔ اس لفظ کا لغوی مفہوم آج بھی یہی ہے یعنی "پرونا" اور اسی بنیاد پر یہ شعری صنف کا نام رکھا گیا۔
ادبی اصطلاح کے طور پر نظم شاعری کی ایک صنف ہے جو خاص موضوع یا خیال کو منظم اور مربوط انداز میں بیان کرتی ہے۔ اس کے برعکس "نثر" وہ تحریر ہے جس میں کوئی باقاعدہ شعری وزن یا ترتیب موجود نہیں ہوتا۔ نظم میں نہ صرف خیالات کو پرونے کا کام کیا جاتا ہے بلکہ الفاظ کو ایسے انداز میں ترتیب دیا جاتا ہے کہ وہ قاری کے ذہن پر گہرا اثر ڈالیں۔
لغوی معنی "پرونا" اس بات کی علامت ہے کہ شاعری میں خیالات، جذبات، اور الفاظ کو موتیوں کی مانند ایک ساتھ پرو کر خوبصورت لڑی بنائی جاتی ہے۔ اسی وجہ سے اردو ادب میں یہ لفظ نہ صرف شعری صنف کے لیے بلکہ عمومی معنوں میں بھی کسی چیز کو ترتیب اور ربط سے جوڑنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
اس لیے لغوی اعتبار سے "نظم" کا مطلب "پرونا" ہی سب سے زیادہ درست اور قریب ترین معنی ہے، جو آج بھی اپنی اصل معنویت کے ساتھ اردو زبان میں رائج ہے۔
Discussion
Leave a Comment