Explore the question in detail with explanation, related questions, and community discussions.
لفظ "قول" عربی زبان سے ماخوذ ہے اور اردو میں بھی کثرت سے استعمال ہوتا ہے۔ یہ بنیادی طور پر بات، کلام یا بیان کے معنی میں آتا ہے۔ عربی لغت میں "قول" کا مطلب ہے "کچھ کہنا، زبانی طور پر اظہار کرنا، یا کسی بات کو بیان کرنا"۔ اردو میں یہ لفظ اپنے اصل عربی معنی کے ساتھ ہی استعمال ہوتا ہے اور اس کے کئی مترادفات پائے جاتے ہیں، جیسے بات، کلام، فرمان، ارشاد، قول و فعل وغیرہ۔
لغوی اعتبار سے "قول" کا سب سے قریب ترین مترادف "بات" ہے کیونکہ دونوں الفاظ کسی خیالی یا زبانی اظہار کو بیان کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ہم کہتے ہیں "قول و فعل میں تضاد نہیں ہونا چاہیے"، اس کا مطلب ہے کہ انسان کی بات اور عمل میں فرق نہ ہو۔ اسی طرح "قول سچا ہونا چاہیے" کہا جائے تو اس کا مطلب ہے کہ انسان کی بات درست اور سچائی پر مبنی ہو۔
ادبی طور پر "قول" کا استعمال بڑے پیمانے پر ہوتا ہے، خصوصاً مذہبی متون میں یہ لفظ زیادہ نظر آتا ہے۔ قرآن مجید میں کئی مقامات پر "قول" کا ذکر آتا ہے، جیسے "قولِ سدید" جس کا مطلب ہے "سیدھی، درست اور سچی بات"۔ اسی طرح "قولِ معروف" یعنی "اچھی بات" اور "قولِ حسن" یعنی "خوبصورت یا نرم بات" بھی اردو میں عام محاورات ہیں۔
روزمرہ گفتگو میں بھی یہ لفظ اپنی اصل معنویت کے ساتھ استعمال ہوتا ہے اور اس کے متبادل کے طور پر "بات" کا لفظ سب سے زیادہ فٹ بیٹھتا ہے۔ دیگر آپشنز جیسے "فاعل" (جو کسی عمل کرنے والے کو کہا جاتا ہے) اور "دانائی" (جو علم یا عقل سے متعلق ہے) "قول" کے معنوی لحاظ سے درست مترادف نہیں ہیں۔
اس لیے لفظ "قول" کا صحیح مترادف ہمیشہ "بات" ہی سمجھا جاتا ہے اور اردو لغت میں بھی یہی اس کا سب سے قریبی معنی درج ہے۔
Discussion
Leave a Comment