Explore the question in detail with explanation, related questions, and community discussions.
اردو زبان میں لفظ "جنحوا" عربی الاصل ہے اور اس کا تعلق فعل "جنح" سے ہے۔ "جنح" کا بنیادی مطلب ہے جھکنا، مائل ہونا، رغبت دکھانا یا کسی طرف جھکاؤ اختیار کرنا۔ جب اس سے "جنحوا" کی شکل بنتی ہے تو اس کا مطلب ہوتا ہے "وہ مائل ہو جائیں" یا "وہ کسی سمت جھک جائیں"۔ یہ لفظ عام طور پر جمع کے صیغے میں استعمال ہوتا ہے اور کسی جماعت یا افراد کے ایک خاص سمت یا رائے کی طرف مائل ہونے کے لیے بولا جاتا ہے۔
قرآنی زبان اور کلاسیکی اردو ادب میں "جنحوا" کا استعمال کثرت سے ہوا ہے۔ مثال کے طور پر عربی متن میں آتا ہے: "وَإِنْ جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا" جس کا ترجمہ ہے: "اگر وہ صلح کی طرف مائل ہو جائیں تو تم بھی صلح کی طرف مائل ہو جاؤ"۔ اس آیت میں لفظ "جنحوا" واضح طور پر میلان یا رغبت کے مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔
لغوی لحاظ سے "جنحوا" کا مطلب صرف جسمانی جھکاؤ نہیں بلکہ دل کا میلان یا رائے کی تبدیلی کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے۔ اس کا استعمال عام طور پر مثبت سیاق میں آتا ہے جیسے امن، صلح یا کسی نیک کام کی طرف مائل ہونا۔ اسی طرح، یہ لفظ کسی نظریے، فیصلے یا معاہدے کی طرف رغبت ظاہر کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
"جنحوا" کے مترادفات میں مائل ہونا، جھک جانا، رغبت ظاہر کرنا، آمادہ ہونا شامل ہیں جبکہ اس کے متضاد الفاظ میں انکار کرنا، مخالفت کرنا، پیچھے ہٹ جانا آتے ہیں۔ اردو لغت میں اس کا ذکر عربی معنی کے ساتھ موجود ہے اور اسلامی متون میں یہ لفظ بارہا ملتا ہے۔
زبان سیکھنے والوں کے لیے "جنحوا" جیسے الفاظ کو سمجھنا اہم ہے کیونکہ یہ نہ صرف دینی متون میں آتا ہے بلکہ ادبی تحریروں میں بھی اس کا استعمال فصاحت و بلاغت پیدا کرتا ہے۔ اس کا درست مفہوم "وہ مائل ہو جائیں" ہے جو صلح یا رغبت کی کیفیت کو ظاہر کرتا ہے
Discussion
Leave a Comment