Explore the question in detail with explanation, related questions, and community discussions.
لفظ "استعارہ" اردو میں نہایت اہم ادبی اصطلاح کے طور پر استعمال ہوتا ہے اور یہ عربی زبان سے ماخوذ ہے۔ "استعارہ" کا تعلق علمِ بیان اور بلاغت سے ہے، مگر لغوی اعتبار سے اس کا اصل مطلب "ادھار دینا" یا "عاریت دینا" ہے۔ یہ لفظ "عاریۃ" یا "عاریت" سے نکلا ہے جو کسی چیز کو وقتی طور پر دوسرے کے استعمال کے لیے دینے کو کہا جاتا ہے۔
ادبی اصطلاح کے طور پر استعارہ ایک ایسا فنی طریقۂ اظہار ہے جس میں ایک چیز کو اس کے حقیقی معنی میں بیان کرنے کے بجائے اس کے ساتھ مشابہ کسی دوسری چیز کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ مگر لغوی طور پر یہ "ادھار دینے" یا "عاریت دینے" کے معنی رکھتا ہے، کیونکہ یہاں ایک لفظ اپنے اصل معنی کو وقتی طور پر دوسرے معنوں کے لیے مستعار دیتا ہے۔
مثال کے طور پر، جب ہم کہتے ہیں "شیر میدان میں آیا"، تو یہاں "شیر" کا لفظ ایک بہادر انسان کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ گویا لفظ "شیر" نے اپنا حقیقی مفہوم (درندہ جانور) کچھ وقت کے لیے بہادری کے مفہوم کو دے دیا ہے۔ یہی "ادھار دینے" کی کیفیت لغوی معنی سے جڑی ہوئی ہے اور اسی سے یہ اصطلاح وجود میں آئی۔
استعارہ اردو شاعری اور نثر کا ایک بنیادی حصہ ہے جو الفاظ میں حسن اور معنویت پیدا کرتا ہے۔ یہ زبان کو پراثر بنانے کے لیے استعمال ہوتا ہے اور قاری کے ذہن میں ایک واضح اور طاقتور تصور قائم کرتا ہے۔ لغوی اعتبار سے اس کی اصل معنویت کو سمجھنے سے ادبی مفہوم کی گہرائی بھی بہتر طور پر سامنے آتی ہے۔
لہٰذا "استعارہ" کے لغوی معنی ہمیشہ "ادھار دینا" ہی لیے جاتے ہیں، جبکہ ادبی لحاظ سے یہ ایک بلیغ طرزِ بیان کی علامت ہے جو اردو ادب کو خوبصورتی اور دلکشی عطا کرتی ہے۔
Discussion
Leave a Comment