Explore the question in detail with explanation, related questions, and community discussions.
لفظ "حب الورید" عربی زبان سے ماخوذ ہے اور اس کا مطلب ہے شہ رگ، یعنی وہ بڑی رگ جو انسانی جسم میں خون کی ترسیل کے لیے سب سے اہم کردار ادا کرتی ہے۔ لفظ "حب" عربی میں "رگ" کے لیے استعمال ہوتا ہے اور "الورید" خاص طور پر اس بڑی رگ کی طرف اشارہ کرتا ہے جو دل اور دماغ کو خون پہنچانے کے لیے بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔ اردو میں یہ لفظ عموماً طبّی اصطلاح اور قرآنی مفہوم دونوں میں استعمال ہوتا ہے۔
قرآن مجید میں سورۃ قٓ (آیت 16) میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: "وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ" یعنی "اور ہم انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں۔" اس آیت میں "حب الورید" انسانی جسم کی اس اہم رگ کی مثال کے طور پر بیان ہوا ہے جو زندگی کی بقا کے لیے نہایت ضروری ہے۔ اس کا مقصد اللہ کی قربت اور علم کی وسعت کو سمجھانا ہے کہ وہ انسان سے اس کی اپنی جان کی رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔
طبی لحاظ سے شہ رگ وہ مرکزی رگ ہے جو دماغ، گردن اور باقی جسم کو خون فراہم کرتی ہے۔ اگر یہ رگ متاثر ہو جائے تو انسانی زندگی شدید خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ اسی لیے اس لفظ کو اہمیت اور قریب ترین تعلق کے لیے بطور محاورہ بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر کہا جاتا ہے: "یہ چیز حب الورید کی طرح ضروری ہے"، یعنی یہ زندگی کے لیے شہ رگ کی مانند اہم ہے۔
اس لفظ کے مترادفات میں شہ رگ، مرکزی رگ، جان کی رگ شامل ہیں، جبکہ اس کا متضاد کوئی مخصوص لفظ نہیں ہے کیونکہ شہ رگ کا مفہوم حیاتیاتی اہمیت سے جڑا ہوا ہے۔ اردو اور عربی ادب میں یہ لفظ زیادہ تر قربت، ضرورت اور زندگی کی اہمیت کے اظہار کے لیے بھی علامتی طور پر استعمال ہوتا ہے۔
اس طرح، "حب الورید" کا درست مفہوم شہ رگ ہے، جو طبّی اور قرآنی دونوں اعتبار سے نہایت بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔
Discussion
Leave a Comment