اردو ادب میں نثر کے کئی انداز اور اسالیب پائے جاتے ہیں۔ ہر اسلوب کی اپنی ساخت، اندازِ بیان اور حسنِ اظہار ہوتا ہے۔ انہی میں سے ایک خوبصورت اور قدیم طرزِ نثر کو نثرِ مسجع کہا جاتا ہے۔ نثرِ... Read More
اردو ادب میں نثر کے کئی انداز اور اسالیب پائے جاتے ہیں۔ ہر اسلوب کی اپنی ساخت، اندازِ بیان اور حسنِ اظہار ہوتا ہے۔ انہی میں سے ایک خوبصورت اور قدیم طرزِ نثر کو نثرِ مسجع کہا جاتا ہے۔ نثرِ مسجع وہ نثر ہے جس کے جملوں یا فقروں کے آخر میں ہم قافیہ یا ہم آہنگ الفاظ آتے ہیں۔ یعنی نثر کی عبارت میں ایسی روانی اور موسیقیت ہوتی ہے جو اسے شاعری کے قریب لے جاتی ہے، مگر یہ باقاعدہ
نظم نہیں کہلاتی۔
لفظ "مسجع" عربی لفظ "سجع" سے ماخوذ ہے، جس کے معنی ہیں ہم آہنگ آواز یا قافیہ بندی۔ اس لیے نثرِ مسجع کو سجع دار نثر یا قافیہ دار نثر بھی کہا جاتا ہے۔
یہ طرزِ نثر خاص طور پر قدیم عربی اور فارسی ادب میں بہت مشہور تھی اور اردو نثر میں بھی ابتدا میں اسی طرز کی پیروی کی گئی۔ اردو کے ابتدائی نثر نگاروں جیسے قاضی عبدالودود، غالب (اپنے خطوط میں کہیں کہیں)، اور سید سلیمان ندوی وغیرہ نے اس طرز کا استعمال خوبصورتی سے کیا۔
مثلاً ایک مثال:
"دنیا فانی ہے، عزت آنی جانی ہے، دولت پانی ہے۔"
یہ جملہ نثرِ مسجع کی مثال ہے کیونکہ اس میں الفاظ کے آخر میں قافیہ داری پائی جاتی ہے جو زبان میں ایک مخصوص ترنم پیدا کرتی ہے۔
نثرِ مسجع کا استعمال خاص طور پر خطبات، مذہبی بیانات، اور ادبی نثر میں حسنِ بیان بڑھانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ اگر قافیہ داری میں مبالغہ نہ کیا جائے تو یہ اسلوب نثر کو نہایت دلکش بناتا ہے۔
لہٰذا، ہم قافیہ نثر کو نثرِ مسجع کہا جاتا ہے، جو نثر کا ایک فنی اور ادبی رنگ ہے۔
Discussion
Leave a Comment