Explore the question in detail with explanation, related questions, and community discussions.
اردو ادب کی نثر کا ارتقاء ایک طویل تاریخی پس منظر رکھتا ہے، لیکن اس میں سب سے نمایاں انقلاب سر سید احمد خان (1817–1898) کی تحریکِ اصلاحات کے ذریعے آیا۔ سر سید احمد خان وہ عظیم مفکر اور مصلح تھے جنہوں نے اردو نثر کو محض کہانی سنانے یا خیالات بیان کرنے کا ذریعہ نہیں بلکہ تعلیمی، سماجی، سائنسی اور مذہبی اصلاحات کے حصول کا مؤثر وسیلہ بنایا۔
1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد برصغیر کے مسلمانوں کی تعلیمی اور سماجی پسماندگی نے سر سید احمد خان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ انہوں نے یہ محسوس کیا کہ اگر مسلمانوں کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے تو تعلیم، جدید سائنسی علوم، عقلی استدلال اور نئی فکر کو اپنانا ہوگا۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے اپنی تحریروں کو ایک طاقتور ذریعہ بنایا۔
ان کی مشہور تحریریں جیسے "اسبابِ بغاوتِ ہند"، "تہذیب الاخلاق"، "خطباتِ احمدیہ" اور دیگر مضامین میں معاشرتی بیداری، سائنسی شعور اور مذہبی اصلاحات کا درس دیا گیا۔ انہوں نے اردو نثر کو آسان، سادہ اور عام فہم زبان میں ڈھالا تاکہ یہ پیغام ہر طبقے تک پہنچ سکے۔
سر سید احمد خان کے اس طرزِ تحریر نے اردو نثر کو محض ادب یا تفریح کا ذریعہ رکھنے کے بجائے ایک تحریکی اور اصلاحی زبان بنا دیا۔ ان کے قائم کردہ علی گڑھ تعلیمی ادارے (بعد میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) اور ان کی صحافتی کاوشوں نے اردو نثر کو ایک نئے فکری اور عملی پہلو سے روشناس کرایا۔
ادبی ناقدین کے نزدیک سر سید احمد خان کی سب سے بڑی خدمت یہی تھی کہ انہوں نے اردو نثر کو ایک جدید، سائنسی، اور اصلاحی زبان بنایا جس کے ذریعے معاشرتی تبدیلی اور مقاصد کے حصول ممکن ہوئے۔ ان کا کام اردو نثر کی تاریخ کا سنگِ میل سمجھا جاتا ہے اور آج بھی ان کی تحریریں اردو ادب کی ترقی اور فکری بیداری کی بنیاد سمجھی جاتی ہیں۔
Discussion
Leave a Comment