Explore the question in detail with explanation, related questions, and community discussions.
اردو ادب کی ترقی میں انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے آغاز میں کئی اہم نام سامنے آئے جنہوں نے نثر و ناول نگاری کو نئی جہتیں دیں۔ ان میں عبدالحلیم شرر اور رतन ناتھ سرشار کے نام نمایاں ہیں۔ ان دونوں ادیبوں نے اردو ادب میں رومانیت (Romanticism) کے رویے کو متعارف کرایا اور کہانیوں کے بیانیے میں جذباتی کیفیت، عشق، قربانی اور انسانی احساسات کو مرکزی موضوع بنایا۔
عبدالحلیم شرر (1860-1926) لکھنؤ کے ایک نامور ادیب اور صحافی تھے۔ ان کے تاریخی ناولوں میں اسلامی تاریخ، ہیرو ازم، اخلاقی اقدار اور رومانوی داستانوں کا امتزاج پایا جاتا ہے۔ شرر کے ناولوں جیسے "فردوس بریں"، "شہیدِ محبت"، اور "ملک العزیز ورجینا" میں رومانوی داستان گوئی اور جذباتی منظر کشی اردو ادب میں ایک نیا ذائقہ لے کر آئی۔
اسی طرح رتن ناتھ سرشار (1846-1903) کا اصل شہکار "فسانہ آزاد" ہے، جو اردو ادب کا پہلا طویل اور جدید ناول سمجھا جاتا ہے۔ اس ناول میں نہ صرف مزاح اور طنز کا عنصر موجود ہے بلکہ معاشرتی زندگی کے ساتھ رومانوی رنگ بھی نمایاں ہے۔ سرشار نے اپنے کرداروں کو محبت، دوستی، خلوص اور انسانی جذبات کے ایسے رنگ دیے جو اس وقت کے دیگر نثر نگاروں سے منفرد تھے۔
رومانیت کے اس رجحان نے اردو ادب کو خشک تاریخی اور تعلیمی مضامین سے نکال کر جذباتی اور دلکش داستان گوئی کی طرف مائل کیا۔ یہ وہ دور تھا جب اردو ادب میں پہلی بار محبت، قربانی، حسن و جمال اور جذباتی کشمکش کو کہانیوں اور ناولوں کا بنیادی حصہ بنایا گیا۔ اس رجحان نے بعد کے ادیبوں کو رومانوی اسلوب اختیار کرنے کی ترغیب دی اور اردو نثر میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا۔
یہی وجہ ہے کہ شرر اور سرشار کو اردو ادب میں رومانوی رویے کے بانیوں میں شمار کیا جاتا ہے، جنہوں نے اردو ناول کو صرف تفریح نہیں بلکہ جذباتی اور فکری سطح پر متاثر کرنے والا فن بنایا۔
Discussion
Leave a Comment