Explore the question in detail with explanation, related questions, and community discussions.
اردو ادب میں کئی ایسے شعرا گزرے ہیں جنہوں نے اپنی منفرد شاعری اور فنی انداز کی بدولت منفرد پہچان حاصل کی۔ ان ہی میں سے ایک نام عبدالحمید عدم (1910-1981) کا ہے۔ انہیں اردو زبان کا "خیام" کہا جاتا ہے، جو کہ مشہور فارسی شاعر عمر خیام سے منسوب ایک لقب ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عبدالحمید عدم نے اردو شاعری میں رباعیات کو خصوصی مقام دیا اور اس صنف کو نئی زندگی بخشی۔
رباعی شاعری کی ایک خاص صنف ہے جو چار مصرعوں پر مشتمل ہوتی ہے اور مختصر الفاظ میں فلسفیانہ سوچ، انسانی جذبات، زندگی کی ناپائیداری اور کائناتی سوالات کو بیان کرتی ہے۔ عمر خیام کی فارسی رباعیات اپنی حکمت، حیات دوستی، اور فکری گہرائی کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ اسی طرز پر عبدالحمید عدم نے اردو زبان میں رباعی گوئی کو اپنایا اور اس کو ایک اعلیٰ ادبی حیثیت عطا کی۔
عدم کی شاعری میں فلسفیانہ خیالات، مایوسی اور امید کا امتزاج، زندگی کی حقیقتوں پر غور، محبت، وقت کی بےثباتی اور انسان کے داخلی تجربات کو نہایت خوبصورتی سے بیان کیا گیا۔ انہوں نے روایتی غزل اور نظم کے بجائے رباعیات کے ذریعے اپنا منفرد مقام بنایا، جس سے اردو ادب میں اس صنف کو نئی مقبولیت ملی۔
ان کا اسلوب سادہ مگر فکر انگیز تھا۔ انہوں نے محدود الفاظ میں گہری بات کہنا اپنا فن بنایا۔ یہی انداز عمر خیام کی رباعیات سے مشابہ تھا، اس لیے عبدالحمید عدم کو "اردو کا خیام" کہا جانے لگا۔ ان کی رباعیات آج بھی ادبی حلقوں میں پڑھی اور حوالہ دی جاتی ہیں، اور کئی جامعات میں ان کے کلام پر تحقیقی کام کیا جاتا ہے۔
یہ بات طے ہے کہ عبدالحمید عدم نے اردو ادب میں رباعیات کی صنف کو نیا رنگ دے کر اسے فارسی رباعی گوئی کے ہم پلہ بنایا اور عالمی شعری روایت سے جوڑ دیا، جو ان کی سب سے بڑی ادبی کامیابی سمجھی جاتی ہے۔
Discussion
Leave a Comment