Explore the question in detail with explanation, related questions, and community discussions.
اردو شاعری میں مختلف اصناف کے ذریعے جذبات، واقعات اور قصے بیان کیے جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک اہم صنف "مثنوی" ہے، جو ایک طویل بیانیہ نظم کہلاتی ہے۔ مثنوی کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں اشعار جوڑوں کی شکل میں لکھے جاتے ہیں، اور ہر شعر کا قافیہ ایک دوسرے سے ملتا ہے۔ مثنوی عموماً لمبے موضوعات جیسے قصے، کہانیاں، عشقیہ داستانیں، جنگی حالات، مذہبی و اخلاقی مضامین اور فلسفیانہ مباحث کو بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
فارسی ادب میں مثنوی کی بنیاد بہت پہلے رکھی گئی اور بعد میں یہ صنف اردو میں آئی۔ اردو کے بڑے شعرا نے مثنوی کے ذریعے ایسے موضوعات پر طویل نظمیں تخلیق کیں جو دیگر شعری اصناف میں بیان کرنا ممکن نہ تھا۔ اس صنف میں واقعات کو تسلسل سے، تفصیل کے ساتھ اور مکمل کہانی کے انداز میں بیان کیا جاتا ہے، جس سے قاری کو پورا منظر اپنی آنکھوں کے سامنے محسوس ہوتا ہے۔
اردو ادب میں مشہور مثنویاں شامل ہیں:
مولانا روم کی "مثنوی معنوی" (فارسی ادب میں)
میر حسن کی "سحرالبیان"
نظیر اکبر آبادی کی طویل اخلاقی مثنویاں
میر انیس اور دبیر کی کربلا کے حالات پر مبنی مثنویاں
مثنوی میں نہ صرف عشق و محبت کے قصے اور داستانیں شامل ہوتی ہیں بلکہ اخلاقی نصیحت، مذہبی تعلیمات، اور جنگی حالات کی تفصیل بھی بیان کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے بیانیہ نظم کہا جاتا ہے، جو اپنی ساخت میں طویل اور کہانی نما ہوتی ہے۔
مثنوی کی صنف اردو شاعری میں داستانی رنگ اور واقعاتی وضاحت کا بہترین ذریعہ سمجھی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طویل نظم جس میں کوئی قصہ، کہانی، جنگی حالات یا فلسفے کی لمبی بات بیان ہو، وہ ہمیشہ مثنوی کہلاتی ہے۔
Discussion
Leave a Comment