Explore the question in detail with explanation, related questions, and community discussions.
ردو شاعری میں مختلف اصناف (Genres) رائج ہیں جن میں غزل، قصیدہ، مرثیہ، رباعی، مثنوی اور مسدس خاص اہمیت رکھتی ہیں۔ ان اصناف کی بنیاد ان کے مصرعوں اور بندوں کی تعداد اور شعری ہیئت پر رکھی جاتی ہے۔ مسدس اردو شاعری کی ایک معروف صنف ہے جس کے ہر بند میں چھ مصرعے شامل ہوتے ہیں۔ لفظ "مسدس" عربی زبان کے لفظ "سدس" سے نکلا ہے، جس کا مطلب ہے چھ کا مجموعہ یا چھائی ہوئی چیز۔
مسدس عموماً ایسے موضوعات کے اظہار کے لیے استعمال ہوتی ہے جنہیں تفصیل سے بیان کرنا مقصود ہو، مثلاً مذہبی واقعات، اخلاقی تعلیمات، قومی شعور اور مرثیہ گوئی۔ اس صنف میں ہر بند چھ مصرعوں پر مشتمل ہوتا ہے، جن میں عموماً پہلے چار مصرعے ایک ہی قافیہ یا ردیف میں ہوتے ہیں جبکہ آخری دو مصرعے دوسرے قافیہ یا ردیف کے ساتھ آتے ہیں، جو ایک طرح کی شعری روانی اور اثر انگیزی پیدا کرتے ہیں۔
اردو ادب میں مسدس کا سب سے مشہور نمونہ مسدسِ حالی ہے، جو مولانا الطاف حسین حالی نے تحریر کیا۔ اس شہرہ آفاق مسدس میں مسلمانوں کی عروج و زوال کی داستان، اخلاقی انحطاط اور اصلاحی پیغام کو نہایت مؤثر انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ حالی کے اس کلام نے نہ صرف اردو شاعری بلکہ مسلمانوں کی فکری بیداری پر گہرا اثر ڈالا۔ اس کے علاوہ میر انیس اور دبیر نے مرثیہ گوئی میں مسدس کی ہیئت کو استعمال کرکے کربلا کے واقعات کو بیان کیا۔
مسدس کی یہ صنف اردو شاعری میں تفصیلی بیانیہ اور جذباتی شدت کے لیے بہترین ہیئت سمجھی جاتی ہے۔ چھ مصرعوں کے بند شاعر کو یہ سہولت فراہم کرتے ہیں کہ وہ ایک خیال کو مکمل تفصیل سے بیان کرے اور قاری کے ذہن پر گہرا اثر چھوڑے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی مسدس اردو شاعری کی مقبول اور تاریخی صنف کے طور پر زندہ ہے۔
Discussion
Leave a Comment