Explore the question in detail with explanation, related questions, and community discussions.
میر حسن (1727–1786) اردو کے نامور کلاسیکی شاعر تھے جنہیں اردو مثنوی کے بانیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ انہوں نے اردو شاعری کو داستانوی رنگ اور بیانیہ طرزِ اظہار عطا کیا، جو اس سے پہلے فارسی مثنویات کے زیرِ اثر تھی۔ میر حسن نے اردو میں مثنوی کو اس قدر مقبول بنایا کہ ان کا نام اس صنف کی بنیاد رکھنے والوں میں ہمیشہ یاد رکھا جاتا ہے۔
میر حسن کی مثنویات کی مجموعی تعداد پانچ (5) مانی جاتی ہے۔ ان کی سب سے مشہور اور کلاسیکی مثنوی "سحرالبیان" ہے، جو اردو ادب کا ایک سنگِ میل تصور کی جاتی ہے۔ اس مثنوی میں عشق، داستان، معاشرتی زندگی اور اس وقت کے تہذیبی رنگوں کو نہایت حسین انداز میں پیش کیا گیا۔
دیگر معروف مثنویات میں شامل ہیں:
طلسم خیال
گلزار ارم
سحرالبیان (سب سے زیادہ مقبول اور نصاب کا حصہ)
اندرسبین
بنجارنامہ
ان مثنویات میں میر حسن نے داستانوی شاعری کو ایک نیا ذوق اور ادبی حسن بخشا۔ ان کا طرزِ بیان سادہ مگر دلکش ہے، جس میں فارسی محاورات اور اردو کی شائستگی کا امتزاج ملتا ہے۔
میر حسن کی مثنویات نے اردو ادب میں داستان گوئی کی بنیاد رکھی اور آنے والے شعرا کو اس صنف میں کام کرنے کی ترغیب دی۔ ان کے کلام میں اخلاقی نصیحت، معاشرتی حالات اور عشقیہ داستانوں کی رنگینی پائی جاتی ہے۔ سحرالبیان کو تو آج بھی اردو کی مثنوی نگاری کا شاہکار مانا جاتا ہے۔
ادبی نقاد میر حسن کو "اردو کا پہلا بڑا مثنوی نگار" قرار دیتے ہیں، کیونکہ ان کی تخلیقات نے نہ صرف اردو مثنوی کو فروغ دیا بلکہ زبان و بیان کے معیار کو بھی نکھارا۔ ان کی مثنویات آج بھی اردو ادب کے کلاسیکی سرمائے کا لازمی حصہ ہیں اور درس و تدریس میں ان کی حیثیت بنیادی مانی جاتی ہے۔
Discussion
Leave a Comment