Explore the question in detail with explanation, related questions, and community discussions.
اردو شاعری کی مختلف اصناف میں ہر صنف کا اپنا ایک مخصوص موضوع اور اندازِ بیان ہوتا ہے۔ ان اصناف میں ایک اہم صنف "مرثیہ" کہلاتی ہے، جو خاص طور پر کسی فرد کی موت، شہادت یا سانحۂ ارتحال کے بیان اور اظہارِ غم کے لیے لکھی جاتی ہے۔ مرثیہ نہ صرف وفات پانے والے کی یاد کو تازہ کرتا ہے بلکہ ان کی خوبیوں، کارناموں اور عظمت کو بھی اجاگر کرتا ہے۔
"مرثیہ" کا لفظی مطلب ہے "رونے کا بیان" یا "غم کا اظہار"۔ اس صنف کا سب سے زیادہ تعلق اسلامی تاریخ خصوصاً کربلا کے واقعے سے جڑا ہوا ہے، جہاں امام حسینؓ اور ان کے رفقاء کی شہادت کو موضوع بنا کر بڑے بڑے شعرا نے مراثی لکھے۔ اردو ادب میں مرثیے کی روایت فارسی اور عربی ادب سے آئی، مگر اردو شعرا نے اس کو عروج پر پہنچایا۔
میر انیس اور مرزا دبیر اردو کے وہ عظیم شاعر ہیں جنہوں نے مرثیے کو فنّی اور فکری لحاظ سے اعلیٰ ترین مقام دیا۔ ان کے مراثی میں واقعۂ کربلا کی تفصیلات، شہداء کی قربانیاں، صبر، شجاعت، وفاداری اور انسانی اقدار کو انتہائی پُراثر انداز میں بیان کیا گیا۔ ان کے علاوہ میر ببر علی انیس، آلِ رضا، سلام لکھنے والے شعرا نے بھی مرثیے کے فن کو وسعت دی۔
مرثیہ لکھنے کا مقصد صرف غم کا اظہار نہیں بلکہ اخلاقی اور دینی اقدار کو اجاگر کرنا، مظلومیت اور عدل کی فتح کو بیان کرنا اور مرنے والے کے کارناموں کو تاریخ میں زندہ رکھنا ہے۔ اردو شاعری میں مرثیے کی صنف کو صرف مذہبی سانحات تک محدود نہیں رکھا گیا بلکہ بڑے رہنماؤں، شعرا اور معاشرتی شخصیات کی وفات پر بھی مراثی لکھے گئے۔
یہ صنف آج بھی اردو ادب کی ایک اہم روایتی صنفِ سخن ہے اور مجالسِ عزاء، مذہبی اجتماعات اور ادبی محافل میں پڑھی جاتی ہے۔ مرثیہ ایک ایسا فن ہے جو غم، احترام اور یادداشت کو شاعری کی صورت میں زندہ رکھتا ہے۔
Discussion
Leave a Comment