Explore the question in detail with explanation, related questions, and community discussions.
سندھ کی دھرتی ہمیشہ سے صوفیاء کرام، علم و ادب، اور محبت و انسانیت کے پیغام کا مرکز رہی ہے۔ اس سرزمین کے شعرا نے اپنی شاعری سے انسانوں کو جوڑنے، محبت پھیلانے اور روحانیت کو عام کرنے میں بے مثال کردار ادا کیا۔ انہی صوفی شعرا میں ایک ممتاز نام حضرت سچل سرمست کا ہے، جو اپنی لسانی مہارت اور فکری گہرائی کی بدولت نہ صرف سندھ بلکہ برصغیر کی ادبی تاریخ میں ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔
حضرت سچل سرمست کا اصل نام عبدالوہاب فاروقی تھا اور ان کی ولادت 1739ء میں ضلع خیرپور، سندھ میں ہوئی۔ انہیں "ہفت زبانی شاعر" کا لقب اس لیے دیا گیا کہ انہوں نے سات زبانوں میں شاعری کی: سندھی، اردو، فارسی، پنجابی، سرائیکی، عربی، اور بلوچی۔ یہ ایک ایسا وصف ہے جو برصغیر کے بہت کم شعرا کو حاصل ہوا، اور اس نے ان کے پیغام کو مختلف قوموں اور زبان بولنے والے طبقات تک پہنچایا۔
سچل سرمست کی شاعری میں وحدت الوجود (Unity of Being)، انسانی مساوات، عشق حقیقی اور روحانی بیداری جیسے موضوعات غالب ہیں۔ ان کا کلام معاشرتی ناانصافی، مذہبی انتہا پسندی اور تعصب کے خلاف ایک مضبوط آواز ہے۔ وہ صوفی روایت کے بڑے ستونوں میں شمار کیے جاتے ہیں جنہوں نے مختلف زبانوں کے ذریعے انسانیت کو ایک کرنے کا پیغام دیا۔
ادبی ماہرین کے مطابق سچل سرمست کی شاعری نے سندھ کی ثقافتی و فکری تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ ان کی زبان نہ صرف عوامی فہم کے قریب تھی بلکہ فلسفیانہ انداز بھی رکھتی تھی، جو آج تک قارئین اور صوفی محافل کو اپنی جانب متوجہ کرتی ہے۔ ان کا مزار خیرپور میں واقع ہے جو آج بھی علم و محبت کے متلاشیوں کے لیے روحانی مرکز ہے۔
Discussion
Leave a Comment