Explore the question in detail with explanation, related questions, and community discussions.
اردو غزل ایک قدیم اور مقبول صنفِ شاعری ہے جو برصغیر میں فارسی شعری روایت سے مستعار لی گئی۔ غزل کی ایک خاص ساخت اور ترتیب ہوتی ہے، جس میں ہر شعر دو مصرعوں پر مشتمل ہوتا ہے اور عام طور پر ہر شعر اپنے مفہوم میں مکمل ہوتا ہے۔ غزل کے چند اہم اجزاء میں مطلع، مقطع، ردیف، قافیہ، بحر اور غزل کا مطلع شعر شامل ہیں۔ ان میں سے مطلع کو بنیادی اہمیت حاصل ہے کیونکہ یہ غزل کا آغاز طے کرتا ہے اور پوری غزل کی موسیقیت اور ردیف و قافیہ کا معیار اسی سے متعین ہوتا ہے۔
غزل کے پہلے شعر کو مطلع کہا جاتا ہے۔ مطلع کا خاصہ یہ ہے کہ اس کے دونوں مصرعوں میں قافیہ اور ردیف یکساں طور پر موجود ہوتے ہیں۔ یہ شعر نہ صرف غزل کی بنیاد رکھتا ہے بلکہ قاری یا سامع کو غزل کے آہنگ اور موضوع سے متعارف کراتا ہے۔ اسی وجہ سے مطلع کے بغیر غزل کو نامکمل سمجھا جاتا ہے۔ بعض اوقات ایک غزل میں دو مطلع بھی ہوسکتے ہیں، جس میں دوسرے مطلع کو حسنِ مطلع کہا جاتا ہے، تاہم عمومی طور پر صرف پہلا شعر ہی مطلع کہلاتا ہے۔
ادب کی تاریخ میں مشہور شعراء جیسے میر تقی میر، مرزا غالب، علامہ اقبال، فیض احمد فیض وغیرہ نے اپنے دیوانوں میں متعدد لازوال مطلع اشعار دیے جو اردو شاعری میں ضرب المثل کا درجہ رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر مرزا غالب کا مطلع:
"نقش فریادی ہے کس کی شوخیٔ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا"
یہ مطلع پوری غزل کے موضوع، آہنگ اور ردیف و قافیہ کی ترتیب کو واضح کرتا ہے اور غزل کی پہچان بن جاتا ہے۔
غزل میں مطلع کی ادبی حیثیت مرکزی ہے کیونکہ اس سے غزل کا تاثر قائم ہوتا ہے، اور یہ شعر سننے والے کو پوری غزل سے جوڑ دیتا ہے۔ اردو شاعری کے بنیادی اصول سیکھنے والوں کے لیے مطلع کی شناخت لازمی علم سمجھا جاتا ہے۔
Discussion
Leave a Comment