Explore the question in detail with explanation, related questions, and community discussions.
مثنوی شاعری مشرقی ادب میں ایک قدیم صنف ہے جس کی ابتدا عربی و فارسی ادب کے ابتدائی ادوار میں ہوئی۔ مثنوی عموماً طویل داستانی نظم کو کہا جاتا ہے جس کے ہر شعر کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں۔ اس صنف کا مقصد تاریخی واقعات، عشقیہ داستانیں، اخلاقی نصیحتیں اور مذہبی مضامین کو منظوم انداز میں بیان کرنا ہوتا تھا۔
دنیا میں سب سے پہلے مثنوی لکھنے والے شاعر کے طور پر محمد حسن بن احمد السغدی کو مانا جاتا ہے۔ وہ 10ویں صدی کے ایک فارسی شاعر تھے جنہوں نے "یوسف و زلیخا" کے قصے پر مبنی ایک مثنوی تحریر کی، جو قدیم فارسی مثنویات میں اولین مثال سمجھی جاتی ہے۔ اگرچہ اس دور میں عربی اور فارسی ادب میں قصیدے اور مرثیے موجود تھے، لیکن منظوم داستانی بیانیہ کی صنف کو مستقل طور پر "مثنوی" کی شکل دینے کا سہرا ابن احمد السغدی کے سر جاتا ہے۔
ان کی مثنویات میں کلاسیکی اسلامی کہانیوں، قرآنی واقعات اور معاشرتی اقدار کی تعلیم شامل تھی۔ انہوں نے اپنے وقت کے شعری اسلوب کو بنیاد بنا کر ایک نئی طرزِ اظہار پیدا کیا، جو بعد میں فارسی ادب کے بڑے ناموں جیسے فردوسی، نظامی گنجوی، سنائی، مولانا روم اور دیگر مثنوی نگاروں کے لیے راہ ہموار کرنے کا باعث بنی۔
بعد کے ادوار میں فردوسی کی "شاہنامہ"، نظامی کی "لیلیٰ مجنوں" اور مولانا روم کی "مثنوی معنوی" نے اس صنف کو مزید جِلا بخشی، لیکن دنیا میں سب سے پہلے مثنوی لکھنے والے شاعر کے طور پر محمد حسن بن احمد السغدی ہی کو پہلا مستند مثنوی نگار تسلیم کیا جاتا ہے۔
ان کے کام کی وجہ سے مثنوی ایک مستقل صنفِ سخن کے طور پر فارسی اور بعد میں اردو ادب میں مقبول ہوئی، اور آج بھی یہ کلاسیکی شاعری کے اہم ترین سرمائے کا حصہ مانی جاتی ہے۔
Discussion
Leave a Comment