Explore the question in detail with explanation, related questions, and community discussions.
اختر حسین جعفری (1932–1992) ایک نامور اردو شاعر اور ترقی پسند ادبی تحریک کے معروف ادیب تھے۔ انہوں نے اپنی نظم "تجھ کو کس پھول کا کفن ہم دیں" خاص طور پر امریکی شاعر ایذرا پاونڈ (Ezra Pound) کی موت پر نظم کی صورت میں خراجِ تحسین پیش کیا۔ یہ نظم 1970 کی دہائی میں شائع ہوئی، جب اردو میں جدید شاعری اور مغربی ادبی تجربات کے اشتراک کی روش فروغ پزیر تھی
نظم کا آغاز تجریدی اور بصری انداز میں ہوتا ہے:
"تجھ کو کس پھول کا کفن ہم دیں / تو جدا ایسے موسموں میں ہوا"
یہ مصرعہ بحرِ معنی میں شاعر کے دل کی کیفیت کو اجاگر کرتا ہے، جہاں شاعر کا مخاطب—ایذرا پاونڈ—کی موت کے وقت اس کی ادبی عظمت اور خلاء کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ اس تشبیہی انداز کا اظہار خاصا معنوی اور محسوسِ غم سے معمور ہے۔
ایذرا پاونڈ 20ویں صدی کے مشہور امریکی تجرباتی شاعروں میں شمار ہوتے ہیں، جو امیجزم اور ورتیسزم (Vorticism) کے نظریاتی رہنما بھی تھے۔ اختر حسین جعفری کی اس نظم میں ان نظریات کا اثر واضح طور پر محسوس ہوتاہے، جہاں تصویری وضاحت اور کثافتِ معنی کے ذریعے قاری کو متن کی گہرائی میں کھینچا جاتا ہےب
نظم کے دیگر بامعنی حصے جیسے:
"جب درختوں کے ہاتھ خالی ہیں / انتظار بہار بھی کرتے"
ان میں شاعر نے ماحول کی ویرانی اور ادبی بُعد میں خلا محسوس ہونے کا تصور پیش کیا ہے۔ اس میں زمانے کی تبدیلی، فن کی قلت اور ایک عظیم شاعر کے جانے کا خالی پن محسوس ہوتا ہے۔
ایذرا پاونڈ کی موت (1972) پر لکھی گئی یہ نظم، اردو ادب میں غربی ادبی شخصیات کے تذکرے میں ایک منفرد پیش رفت تھی۔ اختر حسین جعفری نے یورپی اور امریکی جدیدیت کے ساتھ اردو کی شاعرانہ روایت کو ہم آہنگ کیا، اور اس نظم نے اردو ادب میں مغربی ادبی شخصیات کی تعزیتی شاعری کے نئے زاویے کھولے.
یہ نظم جدید اردو ادب میں تجرباتی شاعری کی ایک اہم مثال ہے، جس میں زبان کی ترکیب، موضوع کی جدیدیت، اور ادبی حوالوں کا امتزاج مل کر ایک منفرد ادبی مقام بناتا ہے۔
Discussion
Leave a Comment