Explore the question in detail with explanation, related questions, and community discussions.
علامہ محمد اقبال، اردو ادب کے وہ منفرد شاعر ہیں جنہوں نے نہ صرف خوبصورت اور پر اثر شاعری کی، بلکہ فلسفہ، فکر اور ملت کی اصلاح کو بھی اپنی شاعری کا موضوع بنایا۔ اُن کی شاعری میں نوجوانوں کو خاص اہمیت حاصل ہے، اور انہوں نے اُسے قوم کا مستقبل قرار دیا۔
اقبال کی شاعری میں "شاہین" ایک علامتی پرندہ ہے جو جرات، بلند پروازی، خودداری، غیرت اور آزادی کی علامت ہے۔ اقبال نے شاہین کو نوجوانوں کے لیے ایک مثالی کردار کے طور پر پیش کیا اور انہیں کہا کہ وہ شاہین کی طرح بلند ہمت، خوددار اور اپنے مقصد کے لیے پرعزم رہیں۔
ان کی نظموں جیسے "سوال و جواب"، "طلوع اسلام"، "خطاب بہ جوانان اسلام" اور دیگر کلام میں شاہین بار بار بطور استعارہ آتا ہے۔ اقبال کہتے ہیں:
"تو شاہین ہے، پرواز ہے کام تیرا
ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں"
یہ اشعار واضح کرتے ہیں کہ اقبال نوجوانوں کو سستی، غلامی اور مایوسی سے نکال کر ایک فعال، مثبت اور باوقار زندگی کی جانب بلاتے ہیں — جیسی شاہین کی زندگی ہوتی ہے جو پہاڑوں کی چوٹیاں عبور کرتا ہے، مردار نہیں کھاتا اور کبھی کسی کا غلام نہیں بنتا۔
اقبال کے نزدیک نوجوانی زندگی کا وہ سنہری وقت ہے جب ایک فرد قوم کی خدمت، خودی کی تلاش اور قیادت کا اہل بن سکتا ہے۔ اس لیے انہوں نے نوجوانوں کو مخاطب کر کے ان میں خوداعتمادی اور شعور بیدار کرنے کی بھرپور کوشش کی۔
لہٰذا، اس سوال کا درست جواب ہے:
✅ "اقبال نے"
Discussion
Leave a Comment