Explore the question in detail with explanation, related questions, and community discussions.
اردو شاعری میں بہت سے شعراء نے غزل کو ایک اعلیٰ مقام بخشا، لیکن جس شاعر کو "رئیس المتغزلین" یعنی "غزل گوئی کا سردار" کہا گیا، وہ ہیں حسرت موہانی۔
حسرت موہانی نہ صرف ایک عظیم شاعر تھے بلکہ ایک انقلابی، سیاستدان اور صحافت کے میدان کے مایہ ناز فرد بھی تھے۔ اُن کا اصل نام سید فضل الحسن تھا، لیکن انہوں نے اپنا ادبی نام "حسرت" رکھا، جو ان کے دل کی کیفیت اور جذبات کی سچائی کو ظاہر کرتا ہے۔
انہوں نے اردو غزل کو محض محبت کی داستانوں تک محدود نہیں رکھا بلکہ اس میں حب الوطنی، روحانی فکر، اخلاقی اقدار، اور انسانی درد و جذبات کو بھی سمو دیا۔ ان کی غزلوں میں سادگی، روانی، اور تاثیر کا امتزاج پایا جاتا ہے۔ ان کی مشہور غزل "چھیڑ اس بات کی وہ ہرگز نہ کرے گا لیکن" آج بھی اردو ادب میں کلاسک کا درجہ رکھتی ہے۔
"رئیس المتغزلین" کا لقب انہیں اس لیے دیا گیا کیونکہ وہ غزل کی نزاکت، حسنِ بیان، اور جذبات نگاری میں اپنے زمانے کے دیگر تمام شاعروں پر فائق تھے۔ اُن کی شاعری میں کلاسیکی روایات کا تسلسل اور جدت کی آمیزش دونوں نظر آتی ہیں۔
حسرت موہانی کی شاعری نے اردو غزل کو عوامی دلوں میں بسایا۔ ان کی زبان نرم، سادہ، لیکن پُر اثر ہوتی تھی۔ اُن کی شاعری میں رومانیت اور قومی شعور دونوں کا امتزاج پایا جاتا ہے، جو انہیں اردو غزل کا حقیقی رہنما بناتا ہے۔
Discussion
Leave a Comment