Explore the question in detail with explanation, related questions, and community discussions.
علامہ اقبال کی شاعری کئی موضوعات کا احاطہ کرتی ہے، جن میں فلسفہ، خودی، قومیت، اسلامی وحدت اور تصوف شامل ہیں۔ تاہم، جب بات اقبال کی تصوف پر مبنی شاعری کی ہوتی ہے، تو ایک نام سب سے نمایاں طور پر سامنے آتا ہے: مولانا جلال الدین رومی۔
مولانا رومی تیرہویں صدی کے عظیم فارسی صوفی شاعر، مفکر اور درویش تھے جن کی مثنوی معنوی کو تصوف کا شاہکار سمجھا جاتا ہے۔ علامہ اقبال نے رومی کو نہ صرف روحانی رہنما بلکہ "مرشد" اور "رہبر" کے طور پر تسلیم کیا۔ ان کی کئی نظموں میں رومی کو خطاب کیا گیا ہے یا ان کے خیالات و تعلیمات کا تذکرہ ملتا ہے۔ مثال کے طور پر، اقبال نے اپنی کتاب مثنوی اسرارِ خودی میں بھی مولانا رومی کو روحانی رہنمائی کا مرکز قرار دیا۔
اقبال کا تصورِ خودی، روحانی بیداری، اور انسان کے مقامِ بلند کے حوالے سے اکثر رومی کی تعلیمات سے متاثر نظر آتا ہے۔ اقبال کے نزدیک تصوف کا مقصد ترکِ دنیا یا محض مراقبہ نہیں، بلکہ ایک فعال، متحرک اور خلاق شخصیت کی تعمیر ہے۔ رومی کے اشعار میں بھی یہ پیغام واضح طور پر ملتا ہے، اسی لیے اقبال ان کے ساتھ ایک گہرا فکری و روحانی تعلق محسوس کرتے تھے۔
اگرچہ اقبال نے دیگر صوفی ہستیوں جیسے حضرت علیؓ، بابا فرید، یا مجدد الف ثانی کا بھی احترام کیا، لیکن رومی کی شخصیت ان کی شاعری میں بار بار سامنے آتی ہے، جو ان کے فکری و روحانی انسلاک کا ثبوت ہے۔
Discussion
Leave a Comment