Explore the question in detail with explanation, related questions, and community discussions.
اردو ادب میں امتیاز علی تاج کو ایک مایہ ناز ڈرامہ نگار کے طور پر جانا جاتا ہے۔ ان کا تحریر کردہ مشہور ڈرامہ "انارکلی" آج بھی اردو ڈرامہ نگاری کی کلاسیکی مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اسی سلسلے میں ان کی تحریر "آرام و سکون" بھی ڈرامے کی صنف میں شمار ہوتی ہے۔
"آرام و سکون" دراصل ایک مکالماتی (dialogue-based) تحریر ہے جس میں دو کرداروں کے درمیان بات چیت کے ذریعے انسانی نفسیات، معاشرتی دباؤ، اور زندگی کے حقیقی سکون پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ امتیاز علی تاج نے اس مختصر لیکن پُراثر ڈرامے میں یہ دکھانے کی کوشش کی کہ بظاہر آرام و آسائش رکھنے والے افراد بھی اندرونی طور پر بے سکونی کا شکار ہو سکتے ہیں۔
ڈرامہ اردو ادب کی وہ صنف ہے جس میں مکالمات اور صحنہ بندی کے ذریعے کرداروں کی سوچ اور حالات کو پیش کیا جاتا ہے۔ امتیاز علی تاج کی تحریر "آرام و سکون" اس تعریف پر مکمل اترتی ہے۔ اس تحریر میں نہ صرف عمدہ زبان کا استعمال کیا گیا ہے بلکہ معاشرتی مسائل کی عکاسی بھی نمایاں ہے۔
اردو کے ابتدائی دور میں ڈرامے کی صنف کو بہت زیادہ ترقی نہیں ملی تھی، لیکن امتیاز علی تاج جیسے مصنفین نے اسے معیار اور مقبولیت کی نئی بلندیوں تک پہنچایا۔ "آرام و سکون" اس بات کی دلیل ہے کہ وہ نہ صرف رومانی موضوعات پر بلکہ فکری اور فلسفیانہ مسائل پر بھی گہرائی سے لکھنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔
Discussion
Leave a Comment