Explore the question in detail with explanation, related questions, and community discussions.
اردو ادب کے عظیم شاعر مرزا اسد اللہ خان غالب اپنی منفرد شاعری اور فکری گہرائی کی وجہ سے آج بھی اردو اور فارسی ادب کے سب سے بڑے شعرا میں شمار کیے جاتے ہیں۔ ان کا اصل نام اسد اللہ خان تھا اور انہوں نے ابتدا میں اپنی شاعری میں "اسد" تخلص استعمال کیا، جو ان کے نام سے ماخوذ تھا۔ تاہم بعد میں انہوں نے یہ تخلص ترک کر کے "غالب" اختیار کیا۔ تاریخی حوالوں کے مطابق یہ تبدیلی 1819ء میں کی گئی۔
"غالب" کا مطلب ہے فاتح، غالب آنے والا، برتر اور غالب رہنے والا۔ اس تخلص کا انتخاب مرزا غالب کی شخصیت اور شاعری کے مزاج سے گہرا تعلق رکھتا تھا۔ ان کے اشعار میں فکری بالادستی، فلسفیانہ انداز اور شاعرانہ قوت نمایاں ہے۔ غالب نے محسوس کیا کہ "غالب" تخلص ان کی شاعری کے رنگ اور ان کے منفرد مقام کو بہتر طور پر ظاہر کرتا ہے۔
ابتدا میں وہ اپنے ابتدائی کلام میں "اسد" لکھتے تھے، مثلاً:
نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
بعد میں جب انہوں نے "غالب" تخلص اختیار کیا تو ان کی شاعری میں ایک نیا اعتماد اور بلند فکری معیار نمایاں ہوا۔ ان کا کلام اردو غزل کو ایک نئی پہچان دینے والا ثابت ہوا اور وہ "شاعرِ انقلابِ غزل" کہلائے۔
دیگر آپشنز کی وضاحت:
1812: اس وقت وہ نوعمر تھے اور ابتدائی طور پر شاعری میں داخل ہو رہے تھے۔
1712: یہ ان کی پیدائش سے تقریباً ایک صدی پہلے کا سال ہے، اس لیے غلط ہے۔
1813: اس وقت وہ ابھی اپنے ابتدائی دور میں "اسد" ہی استعمال کر رہے تھے۔
لہٰذا سوال "مرزا غالب نے اسد تخلص ترک کر کے غالب تخلص کب اپنایا؟" کا درست جواب ہے: 1819ء۔ یہ تبدیلی ان کی ادبی شناخت کے لیے ایک اہم سنگِ میل ثابت ہوئی اور اسی نام سے وہ اردو ادب کی تاریخ میں امر ہو گئے۔
Discussion
Leave a Comment